Tuesday 9 August 2016

غم نصیبوں کو کسی نے تو پکارا ہو گا

غم نصیبوں کو کسی نے تو پکارا ہو گا
اس بھری بزم میں کوئی تو ہمارا ہو گا
آج کس یاد سے چمکی تِری چشمِ پُر نم
جانے یہ کس کے مقدر کا ستارا ہو گا
جانے اب حُسن لٹائے گا کہاں دولتِ درد
جانے اب کس کو غمِ عشق کا یارا ہو گا
تیرے چھپنے سے چھپیں گی نہ ہماری یادیں
تو جہاں ہو گا وہیں ذکر ہمارا ہو گا
یوں جدائی تو گوارا تھی، یہ معلوم نہ تھا
تجھ سے یوں مل کے بچھڑنا بھی گوارا ہو گا
چھوڑ کر آئے تھے جب شہرِ تمنا ہم لوگ
مدتوں راہگزاروں نے پکارا ہو گا
مسکراتا ہے تو اک آہ نکل جاتی ہے
یہ تبسمؔ بھی کوئی درد کا مارا ہو گا

صوفی تبسم

No comments:

Post a Comment