غم نصیبوں کو کسی نے تو پکارا ہو گا
اس بھری بزم میں کوئی تو ہمارا ہو گا
آج کس یاد سے چمکی تِری چشمِ پُر نم
جانے یہ کس کے مقدر کا ستارا ہو گا
جانے اب حُسن لٹائے گا کہاں دولتِ درد
تیرے چھپنے سے چھپیں گی نہ ہماری یادیں
تو جہاں ہو گا وہیں ذکر ہمارا ہو گا
یوں جدائی تو گوارا تھی، یہ معلوم نہ تھا
تجھ سے یوں مل کے بچھڑنا بھی گوارا ہو گا
چھوڑ کر آئے تھے جب شہرِ تمنا ہم لوگ
مدتوں راہگزاروں نے پکارا ہو گا
مسکراتا ہے تو اک آہ نکل جاتی ہے
یہ تبسمؔ بھی کوئی درد کا مارا ہو گا
صوفی تبسم
No comments:
Post a Comment