Tuesday 9 August 2016

دھڑکن دھڑکن ایک ہی نعرہ، اب کیا ہو گا

دھڑکن دھڑکن ایک ہی نعرہ، اب کیا ہو گا
تیرا میرا اور ہمارا، اب کیا ہو گا 
اہلِ عقل اور اہلِ ایماں صف آراء ہیں
بیچ میں ہے انسان بیچارہ، اب کیا ہو گا 
وہ جن کے کہنے پر آگ لگی ہے ساری
وہ بھی پوچھ رہے ہیں یارا! اب کیا ہو گا 
نسلوں سے جو اندر ہی پکتا آیا ہے
لاوہ پھٹنے کو ہے سارا، اب کیا ہو گا 
اپنے ہاتھوں اپنے گھر کو پھونک رہے ہیں
اس سے بڑھ کے اور خسارہ اب کیا ہو گا 

علی زریون

No comments:

Post a Comment