دھڑکن دھڑکن ایک ہی نعرہ، اب کیا ہو گا
تیرا میرا اور ہمارا، اب کیا ہو گا
اہلِ عقل اور اہلِ ایماں صف آراء ہیں
بیچ میں ہے انسان بیچارہ، اب کیا ہو گا
وہ جن کے کہنے پر آگ لگی ہے ساری
نسلوں سے جو اندر ہی پکتا آیا ہے
لاوہ پھٹنے کو ہے سارا، اب کیا ہو گا
اپنے ہاتھوں اپنے گھر کو پھونک رہے ہیں
اس سے بڑھ کے اور خسارہ اب کیا ہو گا
علی زریون
No comments:
Post a Comment