Wednesday 10 August 2016

بجائیں صبح کی کھڑکی، الٹ دیں رات کی تھالی

بجائیں صبح کی کھڑکی، الٹ دیں رات کی تھالی
اچک لیں پھول سے شبنم، شجر سے توڑ لیں ڈالی
ہوا نے بیچ دی ہم کو شفق جو سات رنگوں کی
ملا کے خواب کچھ اس میں بھریں ہم آنکھ ہر خالی
غضب ہے رات کا جوبن، سجا کر آنکھ میں کاجل
بھری ہے مانگ تاروں سے، پہن لی چاند کی بالی
چھنا چھن بج رہی بارش، ہوا کا رقص جاری ہے
یہ بادل ڈھول پیٹیں گے، بجے گی شام کی تالی
ابھی تو موج میں آئی تھیں بحرِ خواب کی لہریں
ہلا کر نیند نے بازو، مری کشتی ڈبو ڈالی
لگا دی آنکھ پر قدغن، نہ دیکھیں خواب کا چہرہ
جگا کر رات بھر ان کو کریں گے ہم بھی رکھوالی
چلی ہیں آندھیاں ایسی اجڑ کر رہ گیا گلشن
گلوں سے چھن گئی خوشبو ہوئی ہے زرد ہریالی
سنبھالے کب سے بیٹھے تھے جو اک پو شاک جذبوں کی
لگی جو ہاتھ وحشت کے سرے سے ہی کتر ڈالی
ہوئی تقسیم وحشت تو ہمارے جیسے لوگوں نے
بنایا جسم کو کاسہ، ہتھیلی دل کی پھیلا لی

سدرہ سحر عمران

No comments:

Post a Comment