Wednesday, 3 August 2016

مزا تھا ان کو جو بلبل سے دوبدو کرتے

مزا تھا ان کو جو بلبل سے دوبدو کرتے
کہ گل تمہاری بہاروں میں آرزو کرتے
مزے جو موت کے عاشق بیان کبھو کرتے
مسیحؑ و خضرؑ بھی مرنے کی آرزو کرتے
غرض تھی کیا ترے تیروں کو آب پیکاں سے
مگر زیارت دل کیوں کر بے وضو کرتے
اگر یہ جانتے چن چن کے ہم کو توڑیں گے
تو گل کبھی نہ تمنائے رنگ و بو کرتے
یقین ہے صبح قیامت کو بھی صبوحی کش
اٹھیں گے خواب سے ساقی سبو سبو کرتے
سمجھیو دار رسن تا ر و سوزن اے منصور
کہ چاک پردہ حقیقت کا ہیں رفو کرتے
نہ رہتی یوسفؑ کنعاں کی خوبئ بازار
مقابلہ میں جو ہم تجھ کو روبرو کرتے
چمن نہ تھا کہ زمانہ کے انقلاب سے ہم
تیمم آب سے اور خاک سے وضو کرتے
سراغ عمر گزشتہ کا لیجیے گر ذوقؔ
تمام عمر گزر جائے جستجو کرتے

ابراہیم ذوق

No comments:

Post a Comment