اب تو گھبرا کے يہ کہتے ہيں کہ مرجائيں گے
مر کے بھی چين نہ پايا تو کدھر جائيں گے
تم نے ٹھیرائی اگر غير کے گھر جانے کی
تو ارادے يہاں کچھ اور ٹھہر جائيں گے
خالی اے چارہ گر ہوں گے بہت مرھم داں
پہنچيں گے رہ گزر يار تلک کيوں کر ہم
پہلے جب تک دو عالم سے گزر جائيں گے
شعلۂ آہ کو بجلی کی طرح چمکاؤں
پر مجھے ڈر ہے کہ وہ ديکھ کے ڈر جائيں گے
ہم ہيں وہ جو کريں خون کا دعویٰ تجھ پر
بلکہ پوچھے گا خدا بھی تو مکر جائيں گے
آگ دوزخ کی بھی ہو جائے گی پانی پانی
جب يہ عاصی عرق شرم سے تر جائيں گے
نہيں پائے گا نشاں کوئی ہمارا ہرگز
ہم جہاں سے روشن تير نظر جائيں گے
ذوقؔ جو مدرسے کے بگڑے ہوئے ہيں مُلا
ان کو مے خانے ميں لے آؤ سنور جائيں گے
ابراہیم ذوق
No comments:
Post a Comment