Wednesday, 3 August 2016

اب تو گھبرا کے يہ کہتے ہيں کہ مرجائيں گے

اب تو گھبرا کے يہ کہتے ہيں کہ مرجائيں گے
مر کے بھی چين نہ پايا تو کدھر جائيں گے
تم نے ٹھیرائی اگر غير کے گھر جانے کی
تو ارادے يہاں کچھ اور ٹھہر جائيں گے
خالی اے چارہ گر ہوں گے بہت مرھم داں
پر مرے زخم نہيں ايسے کہ بھر جائيں گے
پہنچيں گے رہ گزر يار تلک کيوں کر ہم 
پہلے جب تک دو عالم سے گزر جائيں گے
شعلۂ آہ کو بجلی کی طرح چمکاؤں
پر مجھے ڈر ہے کہ وہ ديکھ کے ڈر جائيں گے
ہم ہيں وہ جو کريں خون کا دعویٰ تجھ پر
بلکہ پوچھے گا خدا بھی تو مکر جائيں گے
آگ دوزخ کی بھی ہو جائے گی پانی پانی
جب يہ عاصی عرق شرم سے تر جائيں گے
نہيں پائے گا نشاں کوئی ہمارا ہرگز
ہم جہاں سے روشن تير نظر جائيں گے
ذوقؔ جو مدرسے کے بگڑے ہوئے ہيں مُلا
ان کو مے خانے ميں لے آؤ سنور جائيں گے​

ابراہیم ذوق

No comments:

Post a Comment