صبح رو رو کے شام ہوتی ہے
شب تڑپ کر تمام ہوتی ہے
سامنے چشمِ مستِ ساقی کے
کس کو پروائے جام ہوتی ہے
کوئی غنچہ کھلا کے بلبل کو
ہم جو کہتے ہیں کچھ اشاروں سے
یہ خطا لا کلام ہوتی ہے
کیا چھپاتے ہو جانتا ہوں جہاں
بادہ نوشی مدام ہوتی ہے
کس دن اس غمزہ سے نہیں شایع
خبرِ قتلِ عام ہوتی ہے
تھی جو خدمت جنوں کی مجنوں کو
سو وہ اب میرے نام ہوتی ہے
پانی پانی لبوں سے اس کے ظفرؔ
کیا مئے لالہ فام ہوتی ہے
بہادر شاہ ظفر
No comments:
Post a Comment