Sunday 7 August 2016

اپنی آنکھوں کے سمندر میں اتر جانے دے

اپنی آنکھوں کے سمندر میں اُتر جانے دے 
تیرا مجرم ہوں مجھے ڈوب کے مرجانے دے 
اے نئے دوست میں سمجھوں گا تجھے بھی اپنا 
پہلے ماضی کا کوئی زخم تو بھر جانے دے 
زخم کتنے تیری چاہت سے ملے ہیں مجھ کو 
سوچتا ہوں کہ کہوں تجھ سے مگر جانے دے ​
آگ دنیا کی لگائی ہوئی بجھ جائے گی 
کوئی آنسو میرے دامن پہ بکھر جانے دے 
ساتھ چلنا ہے تو پھر چھوڑ دے ساری دنیا
چل نہ پائے تو مجھے لوٹ کے گھر جانے دے
زندگی میں نے اسے کیسے پرویا تھا نہ سوچ
ہار ٹوٹا ہے تو موتی بھی بکھر جانے دے
ان اندھیروں سے ہی سورج کبھی نکلے گا نظیرؔ
رات کے سائے ذرا اور نکھر جانے دے

نظیر باقری

No comments:

Post a Comment