دھواں بنا کے فضا میں اڑا دیا مجھ کو
میں جل رہا تھا کسی نے بجھا دیا مجھ کو
ترقیوں کا فسانہ سنا دیا مجھ کو
ابھی ہنسا بھی نہ تھا اور رلا دیا مجھ کو
میں ایک ذرہ، بلندی کو چھونے نکلا تھا
سفید سنگ کی چادر لپیٹ کر مجھ پر
فصیلِ شہر میں کس نے لگا دیا مجھ کو
کھڑا ہوں آج بھی روٹی کے چار حرف لیے
سوال یہ ہے کتابوں نے کیا دیا مجھ کو؟
نجانے کون سا جذبہ تھا جس نے خود ہی نظیرؔ
مری ہی ذات کا دشمن بنا دیا مجھ کو
نظیر باقری
No comments:
Post a Comment