Sunday, 7 August 2016

دھواں بنا کے فضا میں اڑا دیا مجھ کو

دھواں بنا کے فضا میں اڑا دیا مجھ کو
میں جل رہا تھا کسی نے بجھا دیا مجھ کو
ترقیوں کا فسانہ سنا دیا مجھ کو
ابھی ہنسا بھی نہ تھا اور رلا دیا مجھ کو
میں ایک ذرہ، بلندی کو چھونے نکلا تھا
ہوا نے تھم کے زمیں پر گرا دیا مجھ کو
سفید سنگ کی چادر لپیٹ کر مجھ پر
فصیلِ شہر میں کس نے لگا دیا مجھ کو
کھڑا ہوں آج بھی روٹی کے چار حرف لیے
سوال یہ ہے کتابوں نے کیا دیا مجھ کو؟
نجانے کون سا جذبہ تھا جس نے خود ہی نظیرؔ
مری ہی ذات کا دشمن بنا دیا مجھ کو

نظیر باقری

No comments:

Post a Comment