Sunday, 7 August 2016

کس قدر تھا گرم نالہ بلبل ناشاد کا

کس قدر تھا گرم نالہ بلبلِ ناشاد کا
آگ پھولوں میں لگی گھر جل گیا صیاد کا
سہل سمجھا تھا ستانا بلبلِ ناشاد کا
چار نالوں میں کلیجا ہل گیا صیاد کا
زیرِ خنجر میں تڑپتا ہوں فقط اس واسطے
خون میرا اڑ کے دامن گیر ہو جلاد کا
درپئے آزار پہلے آسماں اتنا نہ تھا
پا گیا ہے کچھ اشارہ اس ستم ایجاد کا
اب تو وہ بھی لوٹ ہے بلبل تری آواز پر
بارک اللہ خوب پھانسا تُو نے دل صیاد کا
اس کے صدقے جائیے جس نے تجھے پیدا کیا
شکل دی حور و پری کی،۔ دل دیا جلاد کا
وصل میں کیسا ادب اے جان گستاخی معاف
آج لینا ہے مجھے تم سے عوض بے داد کا
آپ بھی خنجر بکف ہیں میں بھی ہوں سینہ سپر
رہ نہ جائے آج کوئی حوصلہ بے داد کا
مجھ کو ہے ایسا چمن درکار جس میں اے جلیلؔ
خوف گلچیں کا نہ ہو،۔ کھٹکا نہ ہو صیاد کا

جلیل مانکپوری

No comments:

Post a Comment