مجھے نہ مژدۂ کیفیتِ دوامی دے
مرے خدا! مجھے اعزازِ ناتمامی دے
میں تیرے چشمۂ رحمت سے شادکام تو ہوں
کبھی کبھی مجھے احساسِ تشنہ کامی دے
مجھے کسی بھی معزز کا ہمرکاب نہ کر
وہ لوگ جو کئی صدیوں سے ہیں نشیب نشیں
بلند ہوں، تو مجھے بھی بلند بامی دے
تری زمین پہ تیرے چمن رہیں آباد
جو دشتِ دل ہے، اسے بھی تو لالہ فامی دے
بڑا سرور سہی تجھ سے ہم کلامی میں
بس ایک بار مگر ذوقِ خود کلامی دے
میں دوستوں کی طرح خاک اڑا نہیں سکتا
میں گردِ راہ سہی، مجھ کو نرم گامی دے
عدوئے نم ہوں، تو کر آندھیوں کی نذر مگر
رفیقِِ گل ہوں تو مجھ کو صبا خرامی دے
اگر گروں تو کچھ اس طرح سر بلند گروں
کہ مار کر، مرا دشمن مجھے سلامی دے
احمد ندیم قاسمی
No comments:
Post a Comment