Sunday 3 July 2016

حالانکہ ہمیں لوٹ کے جانا بھی نہیں ہے

حالانکہ ہمیں لوٹ کے جانا بھی نہیں ہے
کشتی مگر اس بار جلانا بھی نہیں ہے
تلوار نہ چھونے کی قسم کھائی ہے لیکن
دشمن کو کلیجے سے لگانا بھی نہیں ہے
یہ دیکھ کے مقتل میں ہنسی آتی ہے مجھ کو
سچا میرے دشمن کا نشانہ بھی نہیں ہے
میں ہوں مِرا بچہ ہے، کھلونوں کی دکاں ہے
اب کوئی میرے پاس بہانہ بھی نہیں ہے
پہلے کی طرح آج بھی ہیں تین ہی شاعر
یہ راز مگر سب کو بتانا بھی نہیں ہے

منور رانا

No comments:

Post a Comment