Sunday, 3 July 2016

عازم دشت جنوں ہو کے میں گھر سے اٹھا

عازمِ دشتِ جنوں ہو کے میں گھر سے اٹھا 
پھر بہار آئی، قدم پھر نئے سر سے اٹھا   
عمر بھر دل نہ مِرا یار کے گھر سے اٹھا 
بیٹھا دیوار کے نیچے جو میں در سے اٹھا   
گیسو ان کے جو رخِ رشکِ قمر سے اٹھا
پردۂ ظلمتِ شب روئے سحر سے اٹھا 
ہم نشیں ملکِ عدم کو گئے میلے کی طرح 
جا کے پہنچا وہیں جو یار ایدھر سے اٹھا  
ہجرِ ساقی میں جو یاد آئی مجھے بادہ کشی
ابر کی طرح دھواں داغِ جگر سے اٹھا 
گریۂ الفتِ دنداں میں صباؔ ڈوب گیا
آج طوفان نیا آبِ گُہر سے اٹھا 

صبا لکھنوی

No comments:

Post a Comment