حسن باقی، شباب باقی ہے
عاشقی کا نصاب باقی ہے
روز جیتا ہوں، روز مرتا ہوں
زندگی کا حساب باقی ہے
تھک گئے پاؤں، پڑ گئے چھالے
دل سر شام سے بجھا سا ہے
ایک شبِ اضطراب باقی ہے
پڑھ چکے ہم بہت کتابِ زیست
آخری ایک باب باقی ہے
آزمائش سی آزمائش ہے
مر گئے ہم، حساب باقی ہے
دیکھئے کیا ہو عشق کا انجام
وقت کا احتساب باقی ہے
راہ کیوں تک رہے ہو اب سرورؔ
کیا کوئی اور خواب باقی ہے
سرور عالم راز
No comments:
Post a Comment