Sunday, 3 July 2016

حسن باقی شباب باقی ہے

حسن باقی، شباب باقی ہے 
عاشقی کا نصاب باقی ہے 
روز جیتا ہوں، روز مرتا ہوں 
زندگی کا حساب باقی ہے 
تھک گئے پاؤں، پڑ گئے چھالے 
حسرتوں کا سراب باقی ہے 
دل سر شام سے بجھا سا ہے 
ایک شبِ اضطراب باقی ہے 
پڑھ چکے ہم بہت کتابِ زیست 
آخری ایک باب باقی ہے 
آزمائش سی آزمائش ہے 
مر گئے ہم، حساب باقی ہے 
دیکھئے کیا ہو عشق کا انجام 
وقت کا احتساب باقی ہے 
راہ کیوں تک رہے ہو اب سرورؔ 
کیا کوئی اور خواب باقی ہے

سرور عالم راز

No comments:

Post a Comment