Friday, 1 July 2016

ہونٹوں پہ محبت کے فسانے نہیں آتے

ہونٹوں پہ محبت کے فسانے نہیں آتے
ساحل پہ سمندر کے خزانے نہیں آتے
پلکیں بھی چمک اٹھتی ہیں‌ سوتے میں‌ ہماری 
آنکھوں کو ابھی خواب چھپانے نہیں آتے
دل اجڑی ہوئی ایک سرائے کی طرح ہے 
اب لوگ یہاں رات جگانے نہیں آتے
یارو نئے موسم نے یہ احسان کئے ہیں 
اب یاد مجھے درد پرانے نہیں آتے
اڑنے دو پرندوں کو ابھی شوخ ہوا میں 
پھر لوٹ کے بچپن کے زمانے نہیں‌ آتے
اس شہر کے بادل تِری زلفوں کی طرح ہیں 
یہ آگ لگاتے ہیں،۔۔۔۔ بجھانے نہیں‌ آتے
احباب بھی غیروں کی ادا سیکھ گئے ہیں 
آتے ہیں،۔ مگر دل کو دکھانے نہیں آتے

بشیر بدر

No comments:

Post a Comment