بدن کا بوجھ لیے، روح کا عذاب لیے
کدھر کو جاؤں طبیعت کا اضطراب لیے
جلا ہی دے نہ مجھے یہ جنم جنم کی پیاس
ہر ایک راہ کھڑی ہے یہاں سراب لیے
یہی امید کہ شاید ہو کوئی چشم براہ
عجب نہیں کہ مِری طرح یہ اکیلی رات
کسی کو ڈھونڈنے نکلی ہو ماہتاب لیے
سوا ہے شب کے اندھیروں میں دن کی تاریکی
گئے وہ دن جو نکلتے تھے آفتاب لیے
کسی کے شہر میں مانندِ برگِ آوارہ
پھرے ہیں کوچہ بہ کوچہ ہم اپنے خواب لیے
کہاں چلے ہو خیالوں کے شہر میں ثروتؔ
گئے دنوں کی شکستہ سی یہ کتاب لیے
ثروت حسین
No comments:
Post a Comment