شام سے حال عجب تا بہ سحر ہم نے کِیا
کس خرابی سے شبِ غم کو بسر ہم نے کِیا
پونچھ کر بادہ کشی میں لبِ گلگوں ان کی
پنبۂ شیشۂ مے کو گلِ تر ہم نے کِیا
مہر کی طرح تھرا گئے گلہائے چمن
پردۂ دل میں ہوا چادرِ مہ کا عالم
جب تصور تِرا اے رشکِ قمر ہم نے کِیا
تپشِ عشق سے گھر دل میں کِیا اس بت کے
آگ کی طرح سے پتھر میں گزر ہم نے کِیا
شیشۂ مئے کے لیے شیشۂ دل کو توڑا
چُور ساغر کے لیے کاسۂ سر ہم نے کِیا
اے صباؔ دیکھ کے اغیار کا جی چھوٹ گیا
تیغِ سفاک سے جس دم نہ حذر ہم نے کِیا
صبا لکھنوی
No comments:
Post a Comment