نظر جب سے وہ مہرباں ہو گئی ہے
زمیں عشق کی آسماں ہو گئی ہے
تماشا یہ عمرِرواں ہو گئی ہے
یقیں سے گزر کر گماں ہو گئی ہے
مری خاکساری دلیلِ خودی تھی
محبت میں تصویرِغم ہوں سراپا
زباں بے نیازِ فغاں ہو گئی ہے
مری داستاں آنسوؤں کی زبانی
یونہی قطرہ قطرہ بیاں ہو گئی ہے
زمانہ کو حیرت ہے کیوں خامشی پر
مری بے زبانی، زباں ہو گئی ہے
نظر سے نظر کی شناسائیاں ہیں
گھڑی دو گھڑی کو اماں ہو گئی ہے
وہی حسرتیں ہیں، وہی میں ہوں سرورؔ
مکمل مری داستاں ہو گئی ہے
سرور عالم راز
No comments:
Post a Comment