اشارے کیا نگہِ نازِ دل ربا کے چلے
جب انکے تیر چلے نیمچے قضا کے چلے
پکار کہتی تھی حسرت سے لاش عاشق کی
صنم کہاں ہمیں تم خاک میں ملا کے چلے
کسی کا دل نہ کیا ہم نے پائمال کبھی
ملا جنہیں انہیں افتادگی سے اوج ملا
انہیں نے کھائی ہے ٹھوکر جو سر اٹھا کے چلے
مثالِ ماہئ بے آب موج تڑپا کی
حباب پھوٹ کے روئے جو وہ نہا کے چلے
تمام عمر جو کی سب نے بے رخی ہم سے
کفن میں ہم بھی عزیزوں سے منہ چھپا کے چلے
انیسؔ دم کا بھروسا نہیں ٹھہر جاؤ
چراغ لے کے کہاں سامنے ہوا کے چلے
میر انیس
No comments:
Post a Comment