Friday, 1 July 2016

دیکھیں گے پھر ان آنکھوں سے ہم روئے یار بھی

دیکھیں  گے پھر ان آنکھوں سے ہم روئے یار بھی
ہووے گا یہ تمام کبھی انتظار بھی
آئینہ ہی کو کب تئیں دکھلاؤ گے جمال
باہر کھڑے ہیں کتنے اور امیدوار بھی
دشمن تو تھے ہی پر تِری اس دوستی میں اب
بے زار ہم سے ہو گئے ہیں دوستدار بھی
گزری تمام عمر اسی آرزو میں ہائے
دو چار باتیں تم نے نہ کیں ایک بار بھی
برگشتہ طالعی کا کریں اپنی کیا بیان
پھر گئے ہیں ہم سے خنجرِ مژگانِ یار بھی
کیا جانے تیرے کُشتے کدھر خاک ہو گئے
پایا نہ ان کا آہ نشانِ مزار بھی
وقتِ وداع بس کہ تجھی پر نظر گئی
ہونے نہ پائے آپ سے ٹک ہم دو چار بھی
گر تُو نہیں تو جا کے کریں کیا چمن میں ہم
تجھ بِن ہمیں خزاں سے ہے بدتر بہار بھی
اک جانِ ناتواں ہے شکوہ حسنؔ نہیں
ٹھہرا نہ اپنے پاس دلِ بے قرار بھی

میر حسن دہلوی

No comments:

Post a Comment