Sunday 3 July 2016

چلے تھے گھر سے کہ شاید وہ رہگزر آئے

چلے تھے گھر سے کہ شاید وہ رہگزر آئے
جہاں سکون کی صورت کوئی نظر آئے
گھٹا برس بھی گئی اور پیاس بجھ نہ سکی
چلو بہت ہے یہی زخم کچھ نکھر آئے
بکھر گیا کوئی احساس تو سمٹ نہ سکا
جو خواب روٹھ گئے پھر نہ لوٹ کر آئے
کھلی چھتوں پہ جو سائے چھپے رہے دن بھر
بجھی جو شام تو دہلیز پر اتر آئے
ہوا چلی تو خیالوں کے ان گنت چہرے
مِرے وجود کی تنہائیوں میں در آئے
جو نقش گھلنے لگے رات کی سیاہی میں
تھکن سمیٹے ہوئے لوگ اپنے گھر آئے
عذاب اپنے ہی کچھ ایسے نہ تھے ثروتؔ
گناہ گزرے ہوؤں کے بھی اپنے سر آئے

ثروت حسین

No comments:

Post a Comment