چلے تھے گھر سے کہ شاید وہ رہگزر آئے
جہاں سکون کی صورت کوئی نظر آئے
گھٹا برس بھی گئی اور پیاس بجھ نہ سکی
چلو بہت ہے یہی زخم کچھ نکھر آئے
بکھر گیا کوئی احساس تو سمٹ نہ سکا
کھلی چھتوں پہ جو سائے چھپے رہے دن بھر
بجھی جو شام تو دہلیز پر اتر آئے
ہوا چلی تو خیالوں کے ان گنت چہرے
مِرے وجود کی تنہائیوں میں در آئے
جو نقش گھلنے لگے رات کی سیاہی میں
تھکن سمیٹے ہوئے لوگ اپنے گھر آئے
عذاب اپنے ہی کچھ ایسے نہ تھے ثروتؔ
گناہ گزرے ہوؤں کے بھی اپنے سر آئے
ثروت حسین
No comments:
Post a Comment