Sunday 3 July 2016

کچھ ایسے مقامات بھی گزرے ہیں نظر سے

کچھ ایسے مقامات بھی گزرے ہیں نظر سے
دیکھا کیے اور چپ رہے حالات کے ڈر سے
ہم راہ کی دیوار گرا آئے تھے، لیکن
جب دھوپ چڑھی سایۂ دیوار کو ترسے
یہ شعلۂ احساس فروزاں رکھو یارو
اوجھل ہے وہ خورشید ابھی حدِ نظر سے
منزل کا تعین ہے نہ راہوں کا پتا ہے
بے سوچے ہوئے آج نکل آئے ہیں گھر سے
احساس اندھیروں کا سمٹ جاتا ہے ثروتؔ
آتی ہے کرن جب بھی کوئی روزنِ در سے

ثروت حسین

No comments:

Post a Comment