کچھ ایسے مقامات بھی گزرے ہیں نظر سے
دیکھا کیے اور چپ رہے حالات کے ڈر سے
ہم راہ کی دیوار گرا آئے تھے، لیکن
جب دھوپ چڑھی سایۂ دیوار کو ترسے
یہ شعلۂ احساس فروزاں رکھو یارو
منزل کا تعین ہے نہ راہوں کا پتا ہے
بے سوچے ہوئے آج نکل آئے ہیں گھر سے
احساس اندھیروں کا سمٹ جاتا ہے ثروتؔ
آتی ہے کرن جب بھی کوئی روزنِ در سے
ثروت حسین
No comments:
Post a Comment