Friday, 1 July 2016

پیغام نہ ملنے کا مجھے یار نے بھیجا

پیغام نہ ملنے کا مجھے یار نے بھیجا
تحفہ یہ نیا میرے ستم گار نے بھیجا
تا ہو ترے اطراف میں پھر پھر کے معطر
نکہت کو تِرے یاں گل و گلزار نے بھیجا
ناچار چھپا کبک دری شرم سے جا کر
کہسار میں اس کو تِری رفتار نے بھیجا
منصور تجھے عشق میں ٹک مانیو احسان
پستی سے بلندی کے تئیں دار نے بھیجا
قاصد نہ ملا آہ تو پھر جی کو اس پاس
ناچار مجھی سے کسی ناچار نے بھیجا
رتبہ یہ شہادت کا کہاں،۔۔ اور کہاں میں
واں تک مجھے اس شوخ کی تلوار نے بھیجا
کیا بندہ نوازی ہوئی،۔۔ اللہ! یہ کیا تھا
نامہ ہمیں آج اس بتِ عیار نے بھیجا
میرا تو نہ تھا جی کہ میں اس رتبہ کو پہنچوں
پر کوچۂ رسوائی میں دلدار نے بھیجا
کی یاں تئیں حسنؔ کھائی نہ جھڑکی
خاموشی کو آخر تِری تکرار نے بھیجا

میر حسن دہلوی

No comments:

Post a Comment