Friday, 1 July 2016

دل پہ کرتے ہیں دماغوں پہ اثر کرتے ہیں

دل پہ کرتے ہیں دماغوں پہ اثر کرتے ہیں
ہم عجب لوگ ہیں ذہنوں میں سفرکرتے ہیں
جب سراپے پہ کہیں اس کی نظر کرتے ہیں
میر صاحب کی طرح عمر بسر کرتے ہیں
بندش ہم کو کسی حال گوارہ ہی نہیں
ہم تو وہ لوگ ہیں دیوار کو در کرتے ہیں
وقت کی تیز خرامی ہمیں کیا روکے گی
جنبش قلق سے صدیوں کا سفر کرتے ہیں
نقش پا اپنا کہیں راہ میں ہوتا ہی نہیں
سر سے کرتے ہیں مہم جب کوئ سر کرتے ہیں
ہمنشیں خوب ہے یہ محفلِ یاراں کہ یہاں
وہ سلیقہ ہے کہ عیبوں کو ہنر کرتے ہیں
کیا کہیں حال تیرا اے متمدن دنیا
جانور بھی نہیں کرتے، جو بشر کرتے ہیں
ہم کو دشمن کی بھی تکلیف گوارہ نہ ہوئ
لوگ احباب سے بھی صرف نظر کرتے ہیں
مرقدوں پہ تو چراغاں ہے شب و روز مگر
عمر کچھ لوگ اندھیروں میں بسر کرتے ہیں
تذکرہ میرؔ کا غالبؔ کی زباں تک آیا
اعترافِ ہنر، اربابِ ہنر کرتے ہیں 

بشیر بدر

No comments:

Post a Comment