دل پہ کرتے ہیں دماغوں پہ اثر کرتے ہیں
ہم عجب لوگ ہیں ذہنوں میں سفرکرتے ہیں
جب سراپے پہ کہیں اس کی نظر کرتے ہیں
میر صاحب کی طرح عمر بسر کرتے ہیں
بندش ہم کو کسی حال گوارہ ہی نہیں
وقت کی تیز خرامی ہمیں کیا روکے گی
جنبش قلق سے صدیوں کا سفر کرتے ہیں
نقش پا اپنا کہیں راہ میں ہوتا ہی نہیں
سر سے کرتے ہیں مہم جب کوئ سر کرتے ہیں
ہمنشیں خوب ہے یہ محفلِ یاراں کہ یہاں
وہ سلیقہ ہے کہ عیبوں کو ہنر کرتے ہیں
کیا کہیں حال تیرا اے متمدن دنیا
جانور بھی نہیں کرتے، جو بشر کرتے ہیں
ہم کو دشمن کی بھی تکلیف گوارہ نہ ہوئ
لوگ احباب سے بھی صرف نظر کرتے ہیں
مرقدوں پہ تو چراغاں ہے شب و روز مگر
عمر کچھ لوگ اندھیروں میں بسر کرتے ہیں
تذکرہ میرؔ کا غالبؔ کی زباں تک آیا
اعترافِ ہنر، اربابِ ہنر کرتے ہیں
بشیر بدر
No comments:
Post a Comment