Sunday 3 July 2016

سنتے ہیں زندگی تھی کبھی شوخ و شنگ بھی

سنتے ہیں زندگی تھی کبھی شوخ و شنگ بھی
اب ایک واہمہ ہے یہاں روپ رنگ بھی
خود کو ذرا بچا کے نکلیے کہ اِن دنوں
پھولوں کے ساتھ ساتھ برستے ہیں سنگ بھی
یارو چلے ہو جلتی ہوئی دھوپ میں کہاں
دیکھو جھلس گیا ہے کواڑوں کا رنگ بھی
چھت ٹین کی تھی، ٹوٹ کے برسی جو کل گھٹا
بارش کے ساتھ ساتھ بجے جلترنگ بھی
ہم تازہ واردانِ غزل سے نہ کچھ کہو
آ جائے گا غزل کو برتنے کا ڈھنگ بھی

ثروت حسین

No comments:

Post a Comment