اٹھ چکا دل مِرا زمانے سے
اڑ گیا مرغ آشیانے سے
دیکھ کر دل کو مڑ گئی مژگاں
تیر خالی پڑا نشانے سے
چشم کو نقشِ پا کروں کیونکر
ہم نے پایا تو یہ صنم پایا
اس خدائی کے کارخانے سے
تیری زنجیرِ زلف سے نکلے
یہ توقع نہ تھی دوانے سے
اے فغاںؔ دردِ دل سنوں کب تک
اڑ گئی نیند اس فسانے سے
اشرف علی فغاں
No comments:
Post a Comment