خدا کا قہر، بتوں کا عتاب رہتا ہے
اس ایک جان پہ کیا کیا عذاب رہتا ہے
وہ آفتاب جو مستِ شراب رہتا ہے
فلک پہ طائرِ سدریٰ کباب رہتا ہے
وصال میں بھی یہ ان کو حجاب
ہوا ہے بیٹھ کے پہلو میں جان کا دشمن
بغل میں کیوں دلِ خانہ خراب رہتا ہے
تمہارے در پہ کسی دن جو ہم نہیں آتے
خفا خفا سا دلِ خانہ خراب رہتا ہے
یہ دورِ مے ہے صباؔ آج کل زمانے میں
کہ محتسب کا کلیجا کباب رہتا ہے
صبا لکھنوی
No comments:
Post a Comment