دیکھیے خاک میں مجنوں کی اثر ہے کہ نہیں
دشت میں ناقۂ لیلیٰ کا گزر ہے کہ نہیں
وا اگر چشم نہ ہو اس کو نہ کہنا پی اشک
یہ خدا جانے، صدف بیچ گہر ہے کہ نہیں
ایک نے مجھ کو تِرے در کے اُپر دیکھ کہا
آخر اس منزلِ ہستی سے سفر کرنا ہے
اے مسافر تجھے چلنے کی خبر ہے کہ نہیں
توشۂ راہ سبھی ہم سفراں رکھتے ہیں
تیرے دامن میں فغاںؔ لختِ جگر ہے کہ نہیں
اشرف علی فغاں
No comments:
Post a Comment