جلوہ ہے ہر اک رنگ میں اے یار تمہارا
اک نور ہے کیا مختلف آثار تمہارا
ہوتا نہ یہ بندہ جو خریدار تمہارا
رونق نہ پکڑتا کبھی بازار تمہارا
دل ہو مِرے قابو میں جو اے یار تمہارا
اے منعمو! سامانِ سواری پہ نہ بھُولو
اڑ جائے گا اک روز ہوا دار تمہارا
ہوتی ہی نہیں شربتِ دیدار سے سیری
پیاسا ہے بہت تشنۂ دیدار تمہارا
تم قتل کرو گے جو مجھے تیغِ نگہ سے
منہ دیکھ کے رہ جائے گی تلوار تمہارا
ہو مدِ نظر تیرِ نگہ کا جو لگانا
تو وہ بنے ہر ایک کماندار تمہارا
بوسے لبِ شیریں کے عنایت نہیں ہوتے
پرہیز میں مر جائے گا بیمار تمہارا
وصل ایک طرف، ایک بھی بوسہ نہیں ملتا
کیا یاد کرے گا کوئی اے یار تمہارا
فریاد بتوں کی جو صباؔ حشر کو کرتے
اللہ بھی ہوتا نہ طرفدار تمہارا
صبا لکھنوی
No comments:
Post a Comment