Monday 8 August 2016

آئینے سے بھی ہے منہ یار نے موڑا کیا کیا

توسنِ طبع کو کرتا ہوں میں کوڑا کیا کیا
ایک اِک گام پہ مٹتا ہے یہ گھوڑا کیا کیا
اہلِ دولت سے کوئی نزع میں اتنا پوچھے
ساتھ کیا کیا لیا اس وقت میں، چھوڑا کیا کیا
سوزشِ دل سے ہے اف اف شبِ تنہائی میں
ہائے رہ رہ کے تپکتا ہے یہ پھوڑا کیا کیا
کیسا کیسا نہ کیا آ کے خزاں نے برباد
زرِ گل کا نہ ہوا باغ میں توڑا کیا کیا
مر گئے پر نہ دیا ان کو کفن گردوں نے
زندگی میں جو پہنتے رہے جوڑا کیا کیا
کیوں نہ ہو جائیں زمانے میں ہزاروں دریا
ہم نے رو رو کے ہے دامن کو نچوڑا کیا کیا
طاقتِ فقر سے ہم نفس پہ غالب آئے
لنگر اس دشمنِ شہ زور کا توڑا کیا کیا
میکدے میں جو مجھے لے گئ قسمت بے یار
خِشتِ خُم سے سرِ شوریدہ کو پھوڑا کیا کیا
شرم سے سر نہ اٹھایا تِرے رخ کے آگے
باغ میں گل کو صبا نے بھی جھنجھوڑا کیا کیا
دل کو برماتا ہوا صاف جگر سے گزرا
ایک تیرِ نگہِ یار نے توڑا کیا کیا
حلق زاہد کا جو روزے میں بہت خشک ہوا
دامنِ تر مِرا لے لے کے نچوڑا کیا کیا
بارہا روحِ سکندر کو دیئے ہیں صدمے
آئینے سے بھی ہے منہ یار نے موڑا کیا کیا
ہاتھ عنابِ لب و سیبِ ذقن تک پہنچا
ہم نے میوہ چمنِ حسن سے توڑا کیا کیا
اس کے چھَلے کو انگوٹھی سے نہ بدلا ہم نے
ہاتھ رکھ رکھ کے سلیماں نے مروڑا کیا کیا
ہے جلو دار صباؔ خاک مجھ آوارہ کی
آج کف لائے گا اس ترک کا گھوڑا کیا کیا

صبا لکھنوی

No comments:

Post a Comment