Monday 8 August 2016

بزم قاتل سے نہ بیٹھوں گا میں زنہار جدا

بزمِ قاتل سے نہ بیٹھوں گا میں زِنہار جدا
شمع ساں سر مِری گردن سے سو بار جدا
رخِ دلدار سے ہو گیسوئے دلدار جدا
روزِ روشن ہو جدا، اور شبِ تار جدا
دیکھئے، آج وہ تشریف کہاں فرمائیں
ہم سے وعدہ ہے جدا، غیر سے اقرار جدا
مجھ کو ڈر ہے نہ کہیں چاند گہن میں آ جائے
زلفِ شبگوں رخِ روشن سے رکھ اے یار جدا
ساتھ چھوڑوں میں تمہارا، یہ نہیں ممکن ہے 
خیر مانگو، کہیں ہوتے ہیں وفادار جدا
حالِ دل کیا میں کہوں پاس ہے رسوائی کا
ایک دم یار سے ہوتے نہیں اغیار جدا
دور سے ابروئے قاتل کا اشارہ ہے مجھے
پاس سے چاہیے دیوانے کی تلوار جدا
جان کے ساتھ صباؔ عشق بتوں کا رکھو
مثلِ شہ رگ کے گلی سے نہ ہو زِنہار جدا

صبا لکھنوی

No comments:

Post a Comment