موجوں نے ہاتھ دے کے ابھارا کبھی کبھی
پایا ہے ڈوب کر بھی کنارا کبھی کبھی
کرتی ہے تیغِ یار اشارا کبھی کبھی
ہوتا ہے امتحان ہمارا کبھی کبھی
چمکا ہے عشق کا بھی ستارا کبھی کبھی
طالب کی شکل میں ملی مطلوب کی جھلک
دیکھا ہے ہم نے یہ بھی نظارا کبھی کبھی
شوخی ہے حسن کی یہ ہے جذبِ وفا کا سحر
اس نے ہمیں سلام گزارا کبھی کبھی
فریادِ غم روا نہیں دستورِ عشق میں
پھر بھی لیا ہے اس کا سہارا کبھی کبھی
مشکل میں دے سکا نہ سہارا کوئی رتنؔ
ہاں درد نے دیا ہے سہارا کبھی کبھی
پنڈت رتن پنڈوری
No comments:
Post a Comment