Wednesday 3 August 2016

موجوں نے ہاتھ دے کے ابھارا کبھی کبھی

موجوں نے ہاتھ دے کے ابھارا کبھی کبھی
پایا ہے ڈوب کر بھی کنارا کبھی کبھی
کرتی ہے تیغِ یار اشارا کبھی کبھی
ہوتا ہے امتحان ہمارا کبھی کبھی
چمکا ہے عشق کا بھی ستارا کبھی کبھی
مانگا ہے حسن نے بھی سہارا کبھی کبھی
طالب کی شکل میں ملی مطلوب کی جھلک
دیکھا ہے ہم نے یہ بھی نظارا کبھی کبھی
شوخی ہے حسن کی یہ ہے جذبِ وفا کا سحر
اس نے ہمیں سلام گزارا کبھی کبھی
فریادِ غم روا نہیں دستورِ عشق میں
پھر بھی لیا ہے اس کا سہارا کبھی کبھی
مشکل میں دے سکا نہ سہارا کوئی رتنؔ
ہاں درد نے دیا ہے سہارا کبھی کبھی

پنڈت رتن پنڈوری

No comments:

Post a Comment