پہلے مجھ کو بھی خیالِ یار کا دھوکا ہوا
دل مگر کچھ اور ہی عالم میں تھا کھویا ہوا
دل کی صورت گھٹ رہی ہے ڈوبتے سورج کی لَو
اٹھ رہا ہے کچھ دھواں سا دُور بَل کھاتا ہوا
میں نے بے تابانہ بڑھ کر دشت میں آواز دی
نیند اچٹ جائے گی ان متوالی آنکھوں کی نہ سن
میری ہستی کا فسانہ ہے بہت الجھا ہوا
دل سے ٹکرا جاتی ہے رہ رہ کے کوئی موج زیبؔ
شب کا سناٹا کوئی بہتا ہوا دریا ہوا
زیب غوری
No comments:
Post a Comment