بزم والو یہ بزم آرائی
تم ہی دیکھو مجھے تو نیند آئی
ناگہاں چونک اٹھا ہے سناٹا
دفعتاً بول اٹھی ہے تنہائی
بے سبب بھی تِرا خیال آیا
بے ضرورت بھی آنکھ بھر آئی
میرے ہونے سے ایک رونق تھی
اب کسے پوچھتی ہے تنہائی
پھر وہی روز روز جشن کوئی
پھر وہی شا م شام تنہائی
کوئی افسون رقص ہے گویا
جسم ہے روح کا تماشائی
سنگ کے پیرہن میں رنگ ترنگ
زخم کی تہہ میں مسیحائی
ایک پرتو کمال جلوگیاں
ایک چہرہ ہزار رعنائی
شام ہوتے ہی یاں سے کوچ کرو
یاں چراغوں تلک ہے سچائی
گھر سے نکلو تو رزق ملتا ہے
ایک نعمت ہے آبلہ پائی
جانے والوں کا کچھ پتہ نہ چلا
بیچ رستے سے آس لوٹ آئی
نصیر ترابی
تم ہی دیکھو مجھے تو نیند آئی
ناگہاں چونک اٹھا ہے سناٹا
دفعتاً بول اٹھی ہے تنہائی
بے سبب بھی تِرا خیال آیا
بے ضرورت بھی آنکھ بھر آئی
میرے ہونے سے ایک رونق تھی
اب کسے پوچھتی ہے تنہائی
پھر وہی روز روز جشن کوئی
پھر وہی شا م شام تنہائی
کوئی افسون رقص ہے گویا
جسم ہے روح کا تماشائی
سنگ کے پیرہن میں رنگ ترنگ
زخم کی تہہ میں مسیحائی
ایک پرتو کمال جلوگیاں
ایک چہرہ ہزار رعنائی
شام ہوتے ہی یاں سے کوچ کرو
یاں چراغوں تلک ہے سچائی
گھر سے نکلو تو رزق ملتا ہے
ایک نعمت ہے آبلہ پائی
جانے والوں کا کچھ پتہ نہ چلا
بیچ رستے سے آس لوٹ آئی
نصیر ترابی
No comments:
Post a Comment