Monday 1 August 2016

بزم والو یہ بزم آرائی

بزم والو یہ بزم آرائی
تم ہی دیکھو مجھے تو نیند آئی
ناگہاں چونک اٹھا ہے سناٹا
دفعتاً بول اٹھی ہے تنہائی
بے سبب بھی تِرا خیال آیا
بے ضرورت بھی آنکھ بھر آئی
میرے ہونے سے ایک رونق تھی
اب کسے پوچھتی ہے تنہائی
پھر وہی روز روز جشن کوئی
پھر وہی شا م شام تنہائی
کوئی افسون رقص ہے گویا
جسم ہے روح کا تماشائی
سنگ کے پیرہن میں رنگ ترنگ
زخم کی تہہ میں مسیحائی
ایک پرتو کمال جلوگیاں
ایک چہرہ ہزار رعنائی
شام ہوتے ہی یاں سے کوچ کرو
یاں چراغوں تلک ہے سچائی
گھر سے نکلو تو رزق ملتا ہے
ایک نعمت ہے آبلہ پائی
جانے والوں کا کچھ پتہ نہ چلا
بیچ رستے سے آس لوٹ آئی

نصیر ترابی

No comments:

Post a Comment