Monday 1 August 2016

محل سرا میں ہے کوئی نہ خیمہ گاہ میں ہے

محل سرا میں ہے کوئی نہ خیمہ گاہ میں ہے
عجیب شہر ہے سارا ہی شہر راہ میں ہے
یہ رخ ہواؤں کا صورت ہے کس تغیر کی
جو تیرے دل میں ہے وہ بھی میری نگاہ میں ہے
سخن بھی ہوتے ہیں اکثر پس سخن کیا کیا
تِرے سکوت کا لہجہ بھی میری آہ میں ہے
دمشق عشق میں دیوار و در کی حسرت کیا
مسافروں کو تو رہنا ہی گردِ راہ میں ہے
تمام راستے جاتے ہیں ایک منزل تک
کہیں گئے بھی تو آنا اسی کی راہ میں ہے
وہ شہ سوار مِری روشنیِ جاں ہے، نصیرؔ
نہ جو سپاہ سے باہر نہ جو سپاہ میں ہے

نصیر ترابی

No comments:

Post a Comment