Tuesday 2 August 2016

ساتھی ہیں بس اب یہی ہمارے

ساتھی ہیں بس اب یہی ہمارے
شب، گریۂ نیم شب، ستارے
یوں ہو، کوئی میرے پاس آ کر
گزرے شب و روز پھر گزارے
وہ پُل ہی نہیں رہا کہ جس سے
دریا کے ملے رہیں کنارے
حسرت ہی رہی ہوا کو، میں نے
گُل خود ہی کیے ہیں چراغ سارے
کون اس کا کمالؔ ہو نگہباں 
جو باغ خزاں کو خود پکارے

حسن اکبر کمال

No comments:

Post a Comment