Thursday 4 August 2016

یار کو رغبت اغیار نہ ہونے پائے

 یار کو رغبتِ اغیار نہ ہونے پائے

گلِ تر کو ہوسِ خار نہ ہونے پائے

اس میں درپردہ سمجھتے ہیں وہ اپنا ہی گلہ

شکوۂ چرخ بھی زنہار نہ ہونے پائے

فتنۂ حشر جو آنا تو دبے پاؤں ذرا

بختِ خفتہ مرا بیدار نہ ہونے پائے

ہائے دل کھول کے کچھ کہہ نہ سکے سوز دروں

آبلے ہم سخنِ خار نہ ہونے پائے

چپکے وہ آتے ہیں گلگشت کو اے بادِ صبا

سبزۂ باغ بھی بیدار نہ ہونے پائے

پھر کہیں جوش میں آ جائیں نہ یہ دیدۂ تر

سامنے ابرِ گہر بار نہ ہونے پائے

باغ کی سیر کو جاتے تو ہو پر یاد رہے

سبزہ بے گانہ ہے دو چار نہ ہونے پائے

جمع کر لیجئے غمزوں کو مگر خوبی برم

بس وہیں تک ہے کہ بازار نہ ہونے پائے

آپ جاتے ہیں اس بزم میں لیکن شبلیؔ

حالِ دل دیکھئے اظہار نہ ہونے پائے


شبلی نعمانی

No comments:

Post a Comment