Monday 1 August 2016

ایک ہی شہر میں رہتے بستے کالے کاسوں دور رہا

ایک ہی شہر میں رہتے بستے کالے کاسوں دور رہا
اس غم سے ہم اور بھی ہارے وہ بھی تو مجبور رہا
کال تھا اشکوں کا آنکھوں میں لیکن تیری یاد نہ پوچھ
کیا کیا موتی میں بھی فراہم کرنے پر مجبور رہا
وہ اور اتنا پریشاں خاطر ربط غیر کی بات نہیں
لیکن اس کے چپ رہنے سے دل کو وہم ضرور رہا
وقت کی بات ہے یاد آ جانا لیکن اس کی بات نہ پوچھ
یوں تو لاکھوں باتیں نکلیں تیرا ہی مذکور رہا
صبح سے چلتے چلتے آخر شام ہوئی اے آوارۂ دل
اب میں کس منزل میں پہنچا اب گھر کتنی دور رہا

عزیز حامد مدنی ​

No comments:

Post a Comment