ورثہ
آخر کس امید پہ اپنا سر نہوڑائے
بوڑھے پیڑ کے نیچے بیٹھے
بِیتے لمحے گنِتے رہو گے
بوجھل سر سے ماضی کے احسان جھٹک کر اٹھو
گَل کر گِرنے والی ہیں
اس موٹے، بے ڈول تنے کے غار میں جھانکو
ویرانی اپنے بال بکھیرے، خشک زباں سے
اِک اِک جڑ کو چاٹ رہی ہے
آؤ کوڑھ کی ماری شاخوں کے گَلنے سے پہلے
اپنی عمر کے پِیلے سورج کے ڈھلنے سے پہلے
اِک پودا ہی دیتے جائیں
محسن بھوپالی
No comments:
Post a Comment