Friday 5 August 2016

آخر کس امید پہ اپنا سر نہوڑائے

ورثہ

آخر کس امید پہ اپنا سر نہوڑائے
بوڑھے پیڑ کے نیچے بیٹھے
بِیتے لمحے گنِتے رہو گے
بوجھل سر سے ماضی کے احسان جھٹک کر اٹھو
دیکھو یہ سب کوڑھ کی ماری شاخیں
گَل کر گِرنے والی ہیں
اس موٹے، بے ڈول تنے کے غار میں جھانکو
ویرانی اپنے بال بکھیرے، خشک زباں سے
اِک اِک جڑ کو چاٹ رہی ہے
آؤ کوڑھ کی ماری شاخوں کے گَلنے سے پہلے
اپنی عمر کے پِیلے سورج کے ڈھلنے سے پہلے
اِک پودا ہی دیتے جائیں

محسن بھوپالی

No comments:

Post a Comment