ان لبوں کی یاد میں داغِ دل دیوانہ ہے
آتشِ یاقوت سے روشن چراغِ خانہ ہے
پھر بہار آئی کفِ ہر شاخ پر پیمانہ ہے
ہر روش میں جلوۂ بادِ صبا مستانہ ہے
ہر بگولے میں عیاں اک لغزشِ مستانہ ہے
ہے بساں شمع روشن ہر چراغِ چشمِ غول
ہو چکا ہے با رہا آباد جو ویرانہ ہے
سرخوشی ممکن نہیں جب تک نہ چھلکے جامِ عمر
یہ خراباتِ جہاں بھی روزئ مے خانہ ہے
دیکھتے تھے کل جنہیں آنکھوں سے ہم اے غافلو
آج ان کا اپنے کانوں کے لیے افسانہ ہے
محو ایسے خانۂ رنگیں میں مہماں ہو گئے
یہ نہیں ثابت کسی پر کون صاحبِ خانہ ہے
شہر دم میں ہوتے ہیں آباد جن کے حکم سے
ایک دن ان کے لیے بھی گوشۂ ویرانہ ہے
آج ہے جس کے قدم سے رونقِ باغِ جہاں
کل وہی رخصت برنگِ سبزۂ بے گانہ ہے
اپنے کاموں میں رہو مشغول تم اے غافلو
اس کی باتوں پر نہ جاؤ ناسخؔ اک دیوانہ ہے
امام بخش ناسخ
No comments:
Post a Comment