Saturday 6 August 2016

جہاں میں جاؤں ہوا کا یہی اشارہ ہو

جہاں میں جاؤں ہوا کا یہی اشارا ہو
کوئی نہیں جو یہاں منتظر تمہارا ہو
میری بجھتی ہوئی آنکھوں کو روشنی بخشے
وہ پھول جو تیرے چہرے کا استعارا ہو
چلا ہوں اپنی ہی آواز بازگشت پہ یوں
کسی نے دور سے جیسے مجھے پکارا ہو
گنوا چکے کئی عمریں امیدوار تیرے
کہاں تک اور تِری بے رخی گوارا ہو
تو پاس آتے ہوئے مجھ سے دور ہو جائے
عجب نہیں کہ یہی حادثہ دوبارہ ہو
نظر فریبئ رنگ چمن سے بچ مخمورؔ
جسے تو پھول سمجھ لے کہیں شرارہ ہو

مخمور سعیدی

No comments:

Post a Comment