یہ فسوں کار بہاروں کا زمانا ساقی
جام اٹھا جام کہ موسم ہے سہانا ساقی
ہم سمجھتے ہیں جو آداب ہیں میخانے کے
ہم کو آتا ہے تِرے نام اٹھانا ساقی
مۓ صافی نہ سہی، دردِ تہِ جام سہی
گردشِ جام پہ بات آ کے رکی ہے آخر
جب چھِڑا گردشِ دوراں کا فسانا ساقی
زندگی کوئے ملامت میں گنوانے کے سوا
ہم نے جینے کا کوئی ڈھنگ نہ جانا ساقی
ہاتھ سے جامِ مۓ ناب گرا، ٹوٹ گیا
چھِڑ گیا تھا، تِری نظروں کا فسانا ساقی
اور بھی تیز ذرا گردشِ جام اور بھی تیز
اس قدر تیز کہ رک جائے زمانا ساقی
مخمور سعیدی
No comments:
Post a Comment