کس کے قلم سے بھاگ ہمارے لکھے گئے
آنسو نہ لکھ سکے تو ستارے لکھے گئے
اظہار کی مروتیں تھیں اور کچھ نہ تھا
طوفان کی بجائے کنارے لکھے گئے
وہ جو ہماری جان کے دشمن بنے رہے
ایسی عبارتیں تھیں کہ پڑھنی محال تھیں
تحریر کی جگہ بھی اشارے لکھے گئے
وہ بھی تھے جن کو جھولیاں بھر کر دیئے گئے
قسمت میں اپنی صرف گزارے لکھے گئے
کس سے کہیں وہ خواہشیں جو حسرتیں بنیں
احسان پھر بھی نام ہمارے لکھے گئے
اک اک اچھے دن کا بھی دینا پڑا حساب
اکبرؔ وہ اچھے دن جو اُدھارے لکھے گئے
اکبر حمیدی
No comments:
Post a Comment