Saturday 6 August 2016

کس کے قلم سے بھاگ ہمارے لکھے گئے

کس کے قلم سے بھاگ ہمارے لکھے گئے
آنسو نہ لکھ سکے تو ستارے لکھے گئے
اظہار کی مروتیں تھیں اور کچھ نہ تھا
طوفان کی بجائے کنارے لکھے گئے
وہ جو ہماری جان کے دشمن بنے رہے
ہم ان کو اپنی جان سے پیارے لکھے گئے
ایسی عبارتیں تھیں کہ پڑھنی محال تھیں
تحریر کی جگہ بھی اشارے لکھے گئے
وہ بھی تھے جن کو جھولیاں بھر کر دیئے گئے
قسمت میں اپنی صرف گزارے لکھے گئے
کس سے کہیں وہ خواہشیں جو حسرتیں بنیں
احسان پھر بھی نام ہمارے لکھے گئے
اک اک اچھے دن کا بھی دینا پڑا حساب
اکبرؔ وہ اچھے دن جو اُدھارے لکھے گئے

اکبر حمیدی

No comments:

Post a Comment