کچھ زمیں پر رہ گیا کچھ آسماں میں رہ گیا
اک ضروری کام تھا جو درمیاں میں رہ گیا
چاہتیں دونوں طرف تھیں پر نہ مل پائے کہیں
میں مکاں میں وہ غرورِ لا مکاں میں رہ گیا
دل میں کیا کچھ تھا مگر کچھ بھی نہ کہہ پائے انہیں
جو بھی سنتا اس کو خوش الحانیاں کہتا رہا
رنج صحرا کا صدائے سارباں میں رہ گیا
فردِ واحد تھا مگر وہ پوری دنیا تھا مری
ساتھ رکھنا چاہا مگر وہ گھراں میں رہ گیا
مجھ کو مل جاتا تو مہر و ماہ کر دیتا اسے
وہ ستارہ جو غبارِ کہکشاں میں رہ گیا
غور سے دیکھا تو اکبرؔ ہر کوئی جانا یہی
کوئی ناں کوئی خلا عمرِ رواں میں رہ گیا
اکبر حمیدی
No comments:
Post a Comment