Saturday, 6 August 2016

کچھ زمیں پر رہ گیا کچھ آسماں میں رہ گیا

کچھ زمیں پر رہ گیا کچھ آسماں میں رہ گیا
اک ضروری کام تھا جو درمیاں میں رہ گیا
چاہتیں دونوں طرف تھیں پر نہ مل پائے کہیں
میں مکاں میں وہ غرورِ لا مکاں میں رہ گیا
دل میں کیا کچھ تھا مگر کچھ بھی نہ کہہ پائے انہیں
حرفِ مطلب جو بھی تھا حُسنِ بیاں میں رہ گیا
جو بھی سنتا اس کو خوش الحانیاں کہتا رہا
رنج صحرا کا صدائے سارباں میں رہ گیا
فردِ واحد تھا مگر وہ پوری دنیا تھا مری
ساتھ رکھنا چاہا مگر وہ گھراں میں رہ گیا
مجھ کو مل جاتا تو مہر و ماہ کر دیتا اسے
وہ ستارہ جو غبارِ کہکشاں میں رہ گیا
غور سے دیکھا تو اکبرؔ ہر کوئی جانا یہی
کوئی ناں کوئی خلا عمرِ رواں میں رہ گیا

اکبر حمیدی

No comments:

Post a Comment