Monday, 8 August 2016

کوئی غل ہوا تھا نہ شور خزاں

کوئی غل ہوا تھا، نہ شورِ خزاں
اجڑنے لگیں خود بخود بستیاں
جسے دیکھنے گھر سے نکلے تھے ہم
دھواں ہو گیا شام کا وہ سماں
سبھی کچھ تو دریا بہا لے گیا
تجھے اور کیا چاہیے آسماں
بس اک دھند ہے اور کچھ بھی نہیں
روانہ ہوئی تھیں جدھر کشتیاں
ابھی طے شدہ کوئی جادو نہیں
ابھی تک بھٹکتے ہیں سب کارواں
یہی اک خبر گرم تھی شہر میں
کہ اک شوخ بچے نے کھینچی کماں
تماشا دکھا کے گئی صبحِ نو
خموشی ہے پھر سے وہی درمیاں
تعارف مرا کوئی مشکل نہیں
میں آشفتہ چنگیزی، ابنِ خزاں

​آشفتہ چنگیزی

No comments:

Post a Comment