قائم تھی یوں تو درد کی محفل جگہ جگہ
ہم ہی سنا سکے نہ غمِ دل جگہ جگہ
طوفانِ موج خیز کے خُوگر، سنبھل سنبھل
حائل ہیں تیری راہ میں ساحل جگہ جگہ
دل ہر مقامِ شوق سے آگے نکل گیا
ہر نقشِ پا تھا میرے لیے تیرا آستان
آئی نظر مجھے تِری محفل جگہ جگہ
شانِ کرم کو عذرِ طلب بھی تھا ناگوار
پھیلا کے ہاتھ رہ گیا سائل جگہ جگہ
ہر اِک قدم پہ ٹھوکریں کھانے کے باوجود
کھائے فریبِ وعدۂ باطل جگہ جگہ
ہے جوشِ گریہ، موجِ تبسمؔ سے ہم کنار
ہوتے ہیں حسن و عشق مقابل جگہ جگہ
صوفی تبسم
No comments:
Post a Comment