Saturday 6 August 2016

آنکھیں بجھی بجھی ہیں، مگر رات ہے کہاں

آنکھیں بجھی بجھی ہیں، مگر رات ہے کہاں
حصے میں میرے خواب کی سوغات ہے کہاں
بے سمت منزلوں کا میں کرتا رہا طواف
سایا بھی میرا اب کہ مِرے ساتھ ہے کہاں
اس کو بھی ہار اپنی نہیں ہے قبول، اور
میرے نصیب میں بھی لکھی مات ہے کہاں
امسال بھی اگی نہیں کھیتوں میں کوئی فصل
روٹھی ہوئی زمین سے برسات ہے کہاں
رہتا تھا سر پہ جو کبھی چھتنار کی طرح
اس دشتِ کربلا میں تِرا ہاتھ ہے کہاں
آنکھیں تو اٹھ رہی ہیں ہر اک شخص کی حیات
دل کھینچنے کی مجھ میں کوئی بات ہے کہاں

 عادل حیات

No comments:

Post a Comment