“زبانِ غیر سے کیا شرحِ آرزو کرتے”
وہ خود اگر کہیں ملتا، تو گفتگو کرتے
وہ زخم جِس کو کِیا نوکِ آفتاب سے چاک
اسی کو سوزنِ مہتاب سے رفو کرتے
سوادِ دل میں لہو کا سراغ بھی نہ ملا
حجاب اٹھا دِیے خود ہی نگار خانوں نے
ہمیں دِماغ کہاں تھا کہ آرزو کرتے
مصطفیٰ زیدی
No comments:
Post a Comment