Wednesday, 3 August 2016

وہ خود اگر کہیں ملتا تو گفتگو کرتے

“زبانِ غیر سے کیا شرحِ آرزو کرتے”
وہ خود اگر کہیں ملتا، تو گفتگو کرتے
وہ زخم جِس کو کِیا نوکِ آفتاب سے چاک
اسی کو سوزنِ مہتاب سے رفو کرتے
سوادِ دل میں لہو کا سراغ بھی نہ ملا
کسے امام بناتے، کہاں وضو کرتے
حجاب اٹھا دِیے خود ہی نگار خانوں نے
ہمیں دِماغ کہاں تھا کہ آرزو کرتے

مصطفیٰ زیدی

No comments:

Post a Comment