دل نے دیکھی ہے تِری زلف کے سر ہونے تک
وہ جو قطرے پہ گزرتی ہے، گہر ہونے تک
بھیڑ لگ جائے گی شیریں کی گلی میں، فرہاد
لوگ بے بس ہیں، تِرے شہر بدر ہونے تک
زہر پی لیتا ہوں، گر شہد بھرے ہونٹ تِرے
بعد اس کے کوئی تقریب نہیں ہے غم کی
آج تم پاس رہو میرے، سحر ہونے تک
ہم تمھیں اپنی خبر دیں بھی تو کیا سوچ کے دیں
ہم کو رہنا ہی نہیں تم کو خبر ہونے تک
میرا شیرازۂ ہستی نہ بِکھر جائے عدمؔ
اس پری زاد کو توفیقِ نظر ہونے تک
عبدالحمید عدم
No comments:
Post a Comment