Monday 8 August 2016

پھیلے گی بہر طور شفق نیلی تہوں میں

پھیلے گی بہر طور شفق نیلی تہوں میں
قطرے کا لہو بھی ہے سمندر کی رگوں میں
مقتل کی زمیں صاف تھی آئینہ کی صورت
عکسِ رخِ قاتل تھا ہر اک قطرۂ خوں میں
مت پوچھ مری چشمِ تحیّر سے کہ مجھ کو
کیا لوگ نظر آئے ہیں دشمن کی صفوں میں
کچھ وہ بھی کم آمیز تھا، تنہا تھا، حسیں تھا
کچھ میں بھی مخل ہو نہ سکا اس کے سکوں میں
ہر صبح کا سورج تھا میرے سائے کا دشمن
ہر شب نے چھپایا ہے مجھے اپنے پروں میں
اب اہلِ خرد بھی ہیں لہو سنگِ جنوں سے
کیا رسم چلی شہر کے آشفتہ سروں سے
جو سجدہ گہِ ظلمت ِ دوراں رہے محسنؔ
اتری نہ کوئی اندھی کرن ایسے گھروں میں

محسن نقوی

No comments:

Post a Comment