پھیلے گی بہر طور شفق نیلی تہوں میں
قطرے کا لہو بھی ہے سمندر کی رگوں میں
مقتل کی زمیں صاف تھی آئینہ کی صورت
عکسِ رخِ قاتل تھا ہر اک قطرۂ خوں میں
مت پوچھ مری چشمِ تحیّر سے کہ مجھ کو
کچھ وہ بھی کم آمیز تھا، تنہا تھا، حسیں تھا
کچھ میں بھی مخل ہو نہ سکا اس کے سکوں میں
ہر صبح کا سورج تھا میرے سائے کا دشمن
ہر شب نے چھپایا ہے مجھے اپنے پروں میں
اب اہلِ خرد بھی ہیں لہو سنگِ جنوں سے
کیا رسم چلی شہر کے آشفتہ سروں سے
جو سجدہ گہِ ظلمت ِ دوراں رہے محسنؔ
اتری نہ کوئی اندھی کرن ایسے گھروں میں
محسن نقوی
No comments:
Post a Comment