ہم تو یوں اس کے دھیان سے نکلے
تیر جیسے کمان سے نکلے
پھر کہیں بھی انہیں اماں نہ ملی
جو خود اپنی امان سے نکلے
کاش اک دن وہ ہم سے ملنے کو
حوصلہ ہو تو جوئے شِیر ہے کیا
پورا دریا چٹان سے نکلے
جیسی دھج سے گئے تھے اس دل میں
ویسی ہی آن بان سے نکلے
بدنصیبی بھی ساتھ ہو لی تھی
ہم جب اپنے مکان سے نکلے
داستاں گو کو بھی خبر نہ ہوئی
کیسے ہم داستان سے نکلے
اصل میں ہم تھے مرکزی کردار
اور ہمی داستان سے نکلے
جانے کب جسم کا اسیر پرند
دکھ کے اس خاکدان سے نکلے
حسن عباس رضا
No comments:
Post a Comment